Rasool Allah ke Wafat Ka Waqiya in urdu
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا وقت قریب ایا تو ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف دیکھ کر انکھوں میں انسو بھر لائے، پھر فرمایا اللہ تم سب کو خوش رکھے اللہ تمہیں زندہ رکھے تمہاری دستگیری کرے تمہاری مدد کرے میں تمہیں یہی وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا۔ میں صرف اللہ کی طرف سے ایک ڈرانے والا تھا۔ کہ اللہ کے ملک اور اس کے بندوں میں فساد نہ پھیلانا اب میرا وقت قریب اگیا ہے۔ مجھے اب اللہ کی طرف جانا ہے اور سدرۃ المنتہی اور جنت الماوی کی سیر کرنی ہے۔ بس میری طرف سے تم پر اور ان لوگوں پر جو میرے بعد تمہارے دین میں داخل ہوں گے سلام ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہا اے ابوبکر کچھ پوچھ لو۔ کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب تو اپ کا وقت قریب ا چکا ہے۔ فرمایا ہاں قریب تو ا چکا ہے۔ ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ مبارک ہو اپ کو وہ چیز جو اپ کے لیے اللہ کے پاس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تسلی رکھو تمہارا لوٹنا بھی اللہ کی طرف ہے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپ کو غسل کون کرائے۔ فرمایا میرے نزدیک کی رشتہ داروں کے ادمی۔ پھر پوچھا کہ اپ کو کیسے کپڑے کا کفن دیں۔ فرمایا کہ میرے انہی کپڑوں میں اور یمنی جوڑے اور مصری سفید چادر میں کفن دینا۔ پھر پوچھا کہ ہم اپ پر کس طرح نماز جنازہ پڑھیں۔ یہ بات ہم کہہ کر رو پڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ اللہ تمہاری مغفرت کرے اور تمہارے نبی کی طرف سے تمہیں جزائے خیر دے۔ جب تم مجھے غسل دے چکو اور کفن پہنا چکو تو مجھے میرے اسی گھر میں میری چارپائی کے اوپر ہی میری قبر کے کنارے پر رکھ دینا۔ اور ایک گھنٹہ وہاں سے نکل جانا کہ سب سے پہلے خدا کے فرشتے مجھ پر نماز پڑھنے کا حکم ہے۔
پس سب فرشتوں سے پہلے جبرائیل علیہ السلام مجھ پر نماز پڑھیں گے۔ پھر میکائیل علیہ السلام پھر اسرافیل علیہ السلام پھر ملک الموت عزرائیل علیہ السلام بہت سے لشکروں کے ساتھ مجھ پر نماز پڑھیں گے۔ اس کے بعد تم گروہ گروہ ہو کر انا اور مجھ پر نماز پڑھنا اور رونے اور چلانے سے مجھے تکلیف نہ دینا۔ اور نماز میں ایک امام کو اگے کھڑا کرنا اس کے پیچھے میرے اہل بیت درجہ بدرجہ ہوں اس کے بعد عورتوں کا گروہ اس کے بعد بچوں کی جماعت ہو۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اپ کو قبر میں کون داخل کرے۔ فرمایا میرے قریبی رشتہ داروں کی جماعت ان کے ساتھ فرشتوں کی جماعت بھی ہوگی جن کو تم نہیں دیکھو گے وہ تمہیں دیکھیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب وہ دن ایا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو اس روز اپ کو مرض میں افاقہ ہو گیا۔ یہ دیکھ کر مرد خوش ہو کر اپنی اپنی ضروریات کے لیے گھروں کو چل دیے اور صرف عورتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ گئے۔ اور ہم اس روز ایسے خوش ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حکم دیا کہ تم باہر نکل جاؤ کہ یہ فرشتہ میرے پاس انے کی اجازت چاہتا ہے۔ میرے سوا تمام عورتیں باہر نکل گئیں اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ فرشتے سے ملنے کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے۔ اور میں گھر کے کونے میں جدا ہو گئی۔ وہ بہت دیر تک باتیں کرتے رہے۔ جب چلے گئے تو مجھے بلایا اور پھر اپنا سر میری گود میں رکھ دیا اور عورتوں کو بلوایا۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو جبرائیل علیہ السلام کی اواز نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہاں درست ہے یہ ملک الموت تھے۔ انہوں نے مجھے ا کر کہا تھا کہ اللہ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں بغیر اجازت کے اپ پر داخل نہ ہوں۔ اگر اپ مجھے اجازت نہ دیتے تو لوٹ جاتا اور اجازت دیتے تو داخل ہوتا۔ اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں اپ کی اجازت کے بغیر اپ کی روح قبض نہ کروں۔ اب اپ کیا حکم دیتے ہیں۔ میں نے کہا ذرا ٹھہر جاؤ کہ جبرائیل علیہ ۔السلام ا جائیں کہ اب ان کے انے کا وقت ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی بات کے واسطے ہماری طرف متوجہ ہوئے کہ جس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ہم سب ڈر گئے اور اہل بیت میں سے مارے ہیبت کے کوئی کلام نہ کرتا تھا۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنے وقت پر ائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ میں نے ان کی اواز پہچان لی ان کے انے سے سب گھر کے ادمی نکل گئے۔ اور جبرائیل علیہ السلام داخل ہو گئے۔ اور کہا کہ اللہ تعالی اپ کو سلام کہتا ہے اور کہتا ہے کہ اپ اپنے تائی کیسا پاتے ہیں۔ اگرچہ اللہ اپ کا حال سب جانتا ہے مگر اپ کی عزت و شرافت اور کرامت بڑھانے کے لیے دریافت کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں اپنے اپ کو درد میں پاتا ہوں۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا خوش ہو جائیے کہ اللہ تعالی اپ کو اس مقام پر پہنچانا چاہتا ہے جو اپ کے لیے تیار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے جبرائیل ملک الموت میرے پاس ائے تھے اور یہ کہتے تھے پھر سارا ماجرہ سنایا میں انہیں کیا جواب دوں۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپ کا رب اپ کا مشتاق ہے۔ کیا اپ کو نہیں بتلایا کہ جو کچھ وہ اپ سے چاہتے ہیں باخدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ملک الموت نے اپ کے سوا کسی سے اجازت نہیں مانگی ہے۔ اور نہ اپ کے بعد کسی سے اجازت مانگیں گے اپ سے اجازت مانگنا اپ کی عزت و توقیر جتلانے کے لیے ہے۔ اور رب اپ سے ملنا چاہتا ہے کہا کہ جب ملک الموت ائیں تو جاننے سے انکار نہ کرنا۔ اور عورتوں کو خبر کر دیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو کہا اے فاطمہ میرے قریب اؤ وہ گئیں ان کے ساتھ کچھ سرگوشی کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے اپنا سر اٹھایا تو ان کی دونوں انکھوں سے انسو جاری تھے۔ اور بولنے کی طاقت نہ تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو کہا میرے نزدیک اؤ انہوں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کان لگایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں کچھ کہا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہنستے ہوئے سر اٹھایا اور بولتی نہ تھی۔ ہم اس معاملہ سے حیران ہوئے اور فاطمہ سے ماجرہ پوچھا انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے پہلے بتلایا تھا کہ میں اج جان دے رہا ہوں۔ اس لیے میں رو پڑی تھی پھر بلایا اور کہا کہ میں نے اللہ سے دعا مانگی ہے کہ تجھ کو سب سے پہلے میرے ساتھ لاحق کریں۔ اس لیے میں ہنس پڑی پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دونوں بیٹوں حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو بوسہ دیا۔ پھر ملک الموت اگئے اور سلام کیا اور اجازت چاہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی۔ انہوں نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کیا حکم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت مجھے اپنے رب کے ساتھ ملا دو۔ ملک الموت نے کہا ابھی نہیں بلکہ اسی دن میں اپ کو اللہ کے پاس لے چلوں گا۔ اور کہا کہ اپ کا رب اپ کا مشتاق ہے اور اپ جیسی الفت و محبت کسی کے ساتھ نہیں ہے۔ میں اپ کے سوا کسی دوسرے پر اس کی اجازت سے داخل نہیں ہوا۔ اپ کے لے چلنے کا وقت ابھی کچھ اگے ہے یہ کہہ کر ملک الموت چلے گئے۔ اور جبرائیل علیہ السلام اگئے ا کر سلام کیا اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ میرا زمین پر اخری دفعہ کا اترنا ہے۔ اب وحی بند ہو گئی اب مجھے دنیا میں انے کی ضرورت نہیں رہی۔ اپ ہی کے لیے میرا انا ہوا کرتا تھا اب میں اپنی جگہ پر لازم و قائم رہوں گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ اب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پاس گئی اور اپ کا سر اپنے سینے سے لگایا اور اپ کا سینہ ملنا شروع کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہونے لگی اور پیشانی سے پسینہ بہنا شروع ہوا کہ میں نے کسی انسان سے کبھی ایسا پسینہ نہیں دیکھا اور اس کی ایسی خوشبو تھی کہ اس سے اچھی خوشبو میں نے کسی چیز میں نہیں پائی۔ میں اس کو پہنچتی جاتی تھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی وقت ہوش میں اتے تو پوچھتی میرے ماں باپ اور میری جان اور میرے اہل و عیال اپ پر قربان ہوں اپ کی پیشانی سے کیسا ترشح ہوتا ہے۔ فرمایا کہ اے عائشہ مومن کی روح ترشح سے نکلا کرتی ہے اور کافر کی روح اس کی دو باچھوں سے نکلا کرتی ہے
پس اس وقت ہم ڈر گئے اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو بلوا بھیجا سب سے پہلے میرے بھائی ائے جو میرے والد کو بلانے کے لیے گئے ہوئے تھے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کر گئے گویا اللہ نے انہیں روک رکھا تھا ۔جب بے ہوشی طاری ہونے لگتی تو فرماتے الرفیق الاعلی ال رفیق الاعلی اور جب زبان کھلتی تو فرماتے جب تک تم نماز پر قائم رہو گے تم مستقم مضبوط رہو گے نماز نماز کی وصیت کرتے کرتے انتقال کر گئے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال سنوار کے روز دوپہر اور چاشت کے درمیان ہوا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں سنوار کا منہ نہ دیکھوں کہ اس میں امت پر بڑی بھاری مصیبت نازل ہوئی ہے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ جس روز حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر کوفہ میں سخت مصیبت نازل ہوئی تھی وہ بھی سنوار کا دن تھا۔ اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اور اسی دن حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے
0 Comments